Posts

Showing posts from April, 2021

ختم نبوت عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآل وسلم

  ختم نبوت ختم نبوت کہ بارے میں بہت سے علمہ اکرام کی بہت سی مثالیں ریکارڈ پر موجود ھیں ھر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآل  وسلم نے اپنے عشق کی منزل اور فہم و ادراک اور علم کے مطابق دنیا پر واضع کی ھیں میرے علم اور فہم کے مطابق عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ھماری رگوں میں خون کی طرع دوڑ رھا ھے جس دن بہاؤ بند زندگی ختم یا یو ں کہیں کہ سانس کی روانی ھے اگر ختم زندگی ختم ختم ایک مومن کا اساسہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآل وسلم ھے اس بیمثال دولت کہ حصول کے بغیر اللہ کی خوش نودی کا حصول ناممکن ھے میں تو کہتا ھوں اس کے بغیر اللہ کی عدالت میں حاضری بلا جواز ھے جو لوگ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کو ضروری خیال نہیں کرتے اور صرف اللہ کی آس پر جی رھے ھیں وہ صریحاً جہنمی ھیں کیوں کہ اللہ کی رحمت رسول لا صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی محبت شفاعت اور عطاعت سے مشروط ھے اور جو لوگ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے انکاری ھیں وہ پکے جہنمی ھیں ان کے اور جہنم کے درمیان صرف آنکھ جھپکنے کا فاصلہ ھے  یہ یوں آنکھ جھپکے گے اور جہنم میں ھونگے جو اسلام دشمنوں طاقتوں سے پیسہ لے کر محل بنائے ھیں یا جو عیاشی طاقت پوش

مسٹر خان قادیانیوں کواقلیتی حقوق نہیں دے سکتے

مسٹر خان قادیانیوں کو اقلیتی حقوق نہیں دیے جاسکتے ھیں کیوں کہ یہ تو ھر کوئی جانتا ھے کہ قادیانی کافر ھیں اسکی وجہ بھی سب جانتے ھیں کہ وہ توحید کو مانتے ھیں مگر ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآل وسلم پر ایمان نہیں رکھتے ھیں بقول ان کے نبوت جاری ھے اور وہ مرزا غلام احمد کافر کو نبی اور ان کی اولادوں کو نبی کا سلسلہ مانتے ھیں جو کہ ایک خود ساختہ جھوٹ ھے اگر آپ غور کریں تو آپ کو ان کی کتابوں میں تضاد ملے گا کبھی یہ مرزا غلام احمد کو نبی اور کبھی امام مہدی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ھیں جو سراسر جھوٹ ھے آئیے دلیل سے بات کریں اگر ھم غلام احمد کے لفظی معنی پر غور کریں تو پتہ چلتا ھے احمد کا غلام جو اپنے نام سے ھی ھمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا غلام ثابت ھوتا ھے وہ نبی کیسے ھو سکتا ھے اللہ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر مبعوث فرمائے جن میں سے کسی کا نام دو لفظی نہ تھا یک حرفی تھا جیسے موسی عیسی و دیگر انبیا اکرام اب آئیے امامت کی طرف تاریخ شاھد ھے کہ تمام آئمہ اکرام اولاد علی کرم اللہ وجہ کی اولادوں میں سے ھیں تو آخری امام مہدی بھی ان کی اولاد ھی ھوگا لیکن مرزا غلام کہیں سے بھی اہل بیت

مسٹر خان اصل ھیرے کی پہچان

 ایک بادشاہ کے جوہری نے نقلی ھیرے اصلی کی مانند بنائے ایسے کہ کوئی اس کی پہچان نہ کرپائے بادشاہ نے اصل ھیروں کے ساتھ نکلی ھیروں کو ملایا اور اعلان کیا جو ان ھیروں میں سے اصلی اور نکلی ھیروں کو الگ الگ کرے گا منہ مانگا انعام پائے گا اور نہ بتانے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دی جائے گی بہت سے لوگ آئے لیکن ناکام ھو گئے اور ان کی گردنیں اڑا دی گیں ایک دن ایک اندھا آیا اس نے دعوی کیا کہ وہ اصلی اور نقلی ھیروں کو الگ الگ کر سکتا ھے بادشاہ بڑا حیران ھوا اور ناکام ھونے کی صورت میں سزا کا بتایا اندھے شخص نے اسرار کیا تو بادشاہ نے نکلی اور اصلی ھیرے اس کے حوالے کر دئے اندھا شخص تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور اس نے الگ الگ ھیرے بادشاہ کے حوالے کر دئے جوہری نے تصدیق کی کہ اندھے شخص نے صیح پہچان کی ھے بادشاہ حیران ھوا پوچھا تم نے کیسے پہچان کی اندھا شخص کہنے لگا میں نے تمام ہیروں کو دھوپ میں رکھ دیا تھوڑی دیر بعد چھو کر دیکھا تو جو ہیرے دھوپ سے گرم ھو گئے وہ نکلی ھیں اور جو ہیرے دھوپ کی تپش کے باوجود ٹھنڈے رھے وہ اصلی ھیں بادشاہ بہت خوش ھوا اس اندھے کو وعدہ کے مطابق انعام دے دیا بلکل اسی طرح مسٹر خان بند

مسٹر خان چھتر مارنے والے اہلکار بڑھاؤ

 بچپن میں ایک کہاوت سنی تھی آپ بھی سنیں ایک ملک کا بادشاہ تھا ملک بہت خوش خال تھا بادشاہ حیران تھا کبھی کوئی اس کے پاس اپنی خواہش اور مطالبہ لے کر نہیں آیا اس بات کا ذکر اس نے اپنے نااہل وزیروں سے کیا انہوں نے مشورہ دیا ٹیکس بڑھا دیں اس کے بعد بھی کوئی  بادشاہ تک نہ آیا اور ٹیکس بڑھایا پھر بھی کوئی مطالبہ نہ آیا اور ٹیکس بڑھایا پھر بھی عوام کی طرف سے کوئی مطالبہ نہ آیا بادشاہ نے وزرا سے حیرانی سے وجہ پوچھی انہوں نے خوش کرنے کے لیے مشورہ دیا ھر شہری کو جو کام پر دریا سے پار جاتا ھے اسے پانچ چھتر مارے جائیں عوام روزانہ پانچ چھتر کھاتے ایک دن بادشاہ کا خاب پورا ھو گیا اس صورت میں کہ دربان نے بتایا کہ شہریوں کا ایک وفد بادشاہ سے ملنا چاھتا ھے بادشاہ نے سوچا کہ ضرور مجھ سے ٹیکس میں چھوٹ اور چھتر نہ مارنے کا کہیں گے لیکن بادشاہ کی حیرت کی انتہا نہ رھی جب اس نے سنا اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا جب عوام کا مطالبہ سنا مطالبہ یہ تھا جناب کام پر جانے کے لیے دیر ھو جاتی ھے چھتر مارنے والے کی تعداد بڑھائیں میں نے اپنی پوری زندگی اس کہاوت پر یقین نہیں کیا لیکن آج چینی کے لیے رمضان بازاروں میں لائین

مسٹر خان سو چھتر اور سو پیاز

 مسٹر خان کی حکومت کے تیںن سالوں میں ھزاروں فیصلے ایسے ھیں جن پر بعد میں انہیں پچھتانا پڑا اور یو ٹرن لینا پڑا ان کے حواری خوش قسمتی سے نااہل تو ھیں ھی عقل سے پیدل بھی ھیں ان کے بیشتر ساتھی ادھر ادھر سے ادھار لیے گئے ھیں کوئی ک لیگ سے کوئی ن لیگ سے اور کوئی جماعت اسلامی سے اور کوئی پی پی پی سے جسطرح یہ مختلف پارٹیوں سے آئے ھیں اس لیے ان کے نظریات بھی مختلف ھیں لیکن ایک چیز کامن ھے اور وہ ھے اعلی درجے کے خوشامدی اور بھانڈ ھیں رات ھوتے ھی خان صاحب کو شیخ چلی کی طرح خاب دیکھاتے ھیں اور اگلے ھی دن اپنی بیوقوفیوں سے ان خابوں کو چکنا چور کر دیتے ھیں عجیب سا ماحول پیدا کر رکھا ھے کوئی کارکردگی دیکھانے کو تیار نہیں لیکن خان کی خوش آمد اور بھانڈ گری سے اپوزشن پر الزام لگا کر خود کو خان کی نظروں میں ھیرو ثابت کرنے کی ایک دوڑ لگی ھے پہلے خان کو نا ماننے کا مشورہ دیتے ھیں پھر حالات خراب ھونے کی صورت میں ماننے کا مشورہ دیتے ھیں اور اس عجیب و غریب صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے ان کو میڈیا پر آکر قوم کو پھر وضاحت دینی پڑتی ھے لیکن جوش خطابت میں جو پہلے کرنے کہ کام ھیں وہ بعد کرتے ھیں اور جو بعد میں

عالم دین کا کاروبار کرنا درست ھے

 آج کل جناب مولانا طارق جمیل صاحب کے کاروبار کو لیکر بہت بحث چل رھی ھے کچھ لوگوں کا خیال ھے کہ یہ درست نہیں ایسا سوچنا بیمار ذہنوں کا کام ھے بیشک کچھ لوگ مولانا کو پسند نہ کرتے ھوں یا ان کی شخصیت سے اختلاف رکھتے ھوں لیکن ان کے برانڈ کی لانچنگ پر تنقید کرنا درست نہیں کیوں کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ و آل وسلم سے لیکر خلفہ راشدین اور صحابہ اکرام دینی خدمات و جہاد کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کرتے تھے اس لیے ان کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاھیے ہمارے معاشرے میں ایک بیمار سوچ بڑھ رھی ھے ھم دوسروں کی غلطیوں کے جج بن جاتے ھیں اور اپنی غلطیوں کے وکیل عدم برداشت کے ساتھ ساتھ ھمارے معاشرے میں ایک بیماری بڑی تیزی سے بڑھ رھی ھے اور وہ ھے کہ آپ مانگو یا نا مانگو آپ کو نسخہ اور فتوی آسانی سے مل جائے گا بہتر ھے کہ ھم دوسروں پر تنقید کی بجائے خود درست سمت اختیار کریں تاکہ اللہ ھم سے راضی ھو

خوبصورت زندگی

زندگی اتنی خوبصورت ھے کہ اگر انسان اپنے اندر کی خوبصورتی کو پہچان لے تو اس کہ لیے دنیا کے رنگ پھیکے پڑھ جاتے ھیں وہ خود میں خوش رھتا ھے دنیاوی رویے اور چیزیں بے معنی ھو جاتی ھیں انسان دوسروں کو دے کر خوش ھوتا ھے اور دوسروں سے امید نہ رکھ کر خوش رھتا ھے انسان خود اپنے اندر ایک آرمی ھوتا ھے ھر دکھ اور ظلم کا مقابلہ کر سکتا ھے چاھے تو پوری دنیا سے ٹکر لے سکتا ھے بس خود پر بھروسے اور ہمت کی ضرورت ھوتی ھے۔ لوگ آپ کو تکلیف پہچانے میں صرف ایک ھی صورت میں کامیاب ھو سکتے ھیں کہ آپ اپنی کئیر چھوڑ دو آپ خود کو دوسروں کہ لیے اگر بدل دو گے وہ آپ کو کمزور سمجھیں گے اور آپ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ھمیشہ اپنی زندگی جئیں جیسے آپ چاھتے ھیں دوسروں کی پروہ مت کریں اور دوسروں کے بتائے طریقے پرزندگی مت گزاریں زندگی کا سکون برباد ھوجائے گا ویسے جئیں جیسے آپ کا دل چاھتا ھے بس نہ کسی سے برا سلوک کریں اور نہ کسی کا سلوک اپنے مزاج کے خلاف برداشت کریں ورنہ لوگ آپ کو اذیت پسند بنا دیتے ھیں اور آپ ھر تکلیف کو مقدر سمجھ کر خاموش رھنا سیکھ جاتے ھیں اللہ نے انسان کو سوجھ بوجھ عطا کی ھے تاکہ وہ اپنی تکلیفوں کو د