مسٹر خان چھتر مارنے والے اہلکار بڑھاؤ

 بچپن میں ایک کہاوت سنی تھی آپ بھی سنیں ایک ملک کا بادشاہ تھا ملک بہت خوش خال تھا بادشاہ حیران تھا کبھی کوئی اس کے پاس اپنی خواہش اور مطالبہ لے کر نہیں آیا اس بات کا ذکر اس نے اپنے نااہل وزیروں سے کیا انہوں نے مشورہ دیا ٹیکس بڑھا دیں اس کے بعد بھی کوئی  بادشاہ تک نہ آیا اور ٹیکس بڑھایا پھر بھی کوئی مطالبہ نہ آیا اور ٹیکس بڑھایا پھر بھی عوام کی طرف سے کوئی مطالبہ نہ آیا بادشاہ نے وزرا سے حیرانی سے وجہ پوچھی انہوں نے خوش کرنے کے لیے مشورہ دیا ھر شہری کو جو کام پر دریا سے پار جاتا ھے اسے پانچ چھتر مارے جائیں عوام روزانہ پانچ چھتر کھاتے ایک دن بادشاہ کا خاب پورا ھو گیا اس صورت میں کہ دربان نے بتایا کہ شہریوں کا ایک وفد بادشاہ سے ملنا چاھتا ھے بادشاہ نے سوچا کہ ضرور مجھ سے ٹیکس میں چھوٹ اور چھتر نہ مارنے کا کہیں گے لیکن بادشاہ کی حیرت کی انتہا نہ رھی جب اس نے سنا اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا جب عوام کا مطالبہ سنا مطالبہ یہ تھا جناب کام پر جانے کے لیے دیر ھو جاتی ھے چھتر مارنے والے کی تعداد بڑھائیں میں نے اپنی پوری زندگی اس کہاوت پر یقین نہیں کیا لیکن آج چینی کے لیے رمضان بازاروں میں لائین میں لگے لوگوں کا مطالبہ سن کر اس کہاوت پر یقین آ گیا ان  کو گھنٹوں لائین میں لگنے کی ذلت کا کوئی مسلۂ نہیں بلکہ ان کو یہ گلا ھے کہ چینی دو کلو کی بجائے پانچ کلو کیوں نہیں دی جارہی اس قوم کی تقدیر کیسے بدلے گی جو جھوٹے نعروں پر یقین کر کے چوروں کو ووٹ دیتی ھے اور ان سے فرشتوں جیسے سلوک کی امید کرتے ھیں جب تک آپ لوگ اچھے لوگوں کو نہ چنیں گے تب تک بہتری نہ آئے گی شحصیت پرستی چھوڑ کر بہتر لوگ چنیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ھوں سب کچھ ٹھیک ھو جائے گا

Comments

Popular posts from this blog

کردار کشی کی سیاست

انڈے ڈبل روٹی پر پابندی

مسٹر خان سو چھتر اور سو پیاز