ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم

ناموس رسالت صلی  اللہ علیہ وسلم 

مسلمان جن دو عقائد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا وہ توحید و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ھیں ان میں سے کسی ایک کا نہ ماننا کافر ھونے کے لیے کافی ھے.
قادیانی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکاری ھیں یہی وجہ ھے کہ ان کے کافر ھونے میں کو شک نہیں ھے.
آجکل قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کو لیکر مذھبی اور سیاسی حلقوں میں لمبی بحث چل رھی ھے.
میرا ایمان ھے کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا ایک مذھبی اور سیاسی جرم ھو گا.
کیوں کہ جب دو ھو یا دنیا کے تمام مذاہب کو اقلیت قرار دینا درست ھے کیوں کہ یہ تمام مذاہب اپنی ارتقاء رکھتے ھیں.
قادیانیت ایک مذھب نہں بلکہ اسلام کے تشخص کو بگاڑنے کی ایک بین الاقوامی سازش ھے. اگر  اقلیت قراردیتے ھیں,تو نہ صرف قادیانیت کو ایک مذھبی تسلیم کر  لیتے ہیں  بلکہ اپنے آئین میں موجود وہ تمام حقوق دینے کے پابند ہو جاتے ھیں جو آئین پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل  ہیں. یعنی الیکشن میں حصہ لینا کی پوسٹ پر تعیناتی اور اظہار رائے کی آزادی حاص طور پر مذھبی آزادی,عبادت گاہوں کی تعمیر,تبلیغ کی آزادی.
جو لوگ یہ کہتے ھیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں وہ عقل سے پیدل ھیں. 
ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ کا صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم.
کیا ھم آقا دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں حکم بھول گئے ہیں.جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اقلیتوں کو مکمل حقوق دے رکھے تھے اور ان کے تحفظ کا خاص انتظام کیا اور انہیں ہر طرح کی مذھبی آزادی دی. لیکن جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والے مسلمہ کذاب کے خلاف لشکر کشی کا حکم دیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لئے اس بات پر مہر لگا دی کہ ھمیں اقلیتوں کا خیال رکھنا ھے انہیں تحفظ دینا ھے ان کو مذھبی آزادی دینی ھے اظہار رائے کی آزادی دینی ھے.لیکن اگر کوئی ختم نبوت کا دعوی کرے اور اسلام میں بگاڑ پیدا کرے وہ قابل قبول نہیں ھے لہذا قادیانیت قابل قبول نہں نہ ھم انیں مذھبی آزادی دیں,نہ تبلیغ کی اور نہ ھی ھم انہیں الیکشن میں حصہ لینے دیں گے

تاریخ پاکستان اور قادیانیت

.آئیے تاریخ پاکستان کی روشنی میں قادیانیوں کو کافر کیوں قرار دیا گیا جانے. : قادیانی ایسے ھی کافر قرار نہیں دیئے گۓ۔
قومی اسمبلی میں مناظرہ

جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا 
کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا 
موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو !!

مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید داڑهی۔قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رہے تهے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بهی پڑہتے.
ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔
یہ مسلہ بہت بڑا اور مشکل تها
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور نورانی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہرقادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا اب سوالات نورانی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں۔۔۔__
سوال۔مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔وہ امتی نبی تهے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔
سوال۔اس پر وحی آتی تهی؟
جواب۔آتی تهی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال۔مرزا قادیانی نے لکها ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب ۔کافر تو ہیں۔لیکن چهوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔آگے مرزا نے لکها ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔آگے لکها ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چهوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کے کئیں کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟

(یہاں نورانی صاحب فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کهڑے ہوگئے کہ اچها ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دهچکا لگا)

اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی تهے؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر  نورانی صاحب نے کہا پهرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔وہ فنا فی الرسول تهے۔یہ ان کا اپنا کمال تها۔وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی )
سوال۔مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکها ہے۔اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان  کے معارف سے نفع اٹهاتا ہے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا ) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکهی ہے۔وہ مجهے قبول نہیں کرتے۔؟
جواب۔بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“   سورہ مریم ) ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ تهی“
جواب۔قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔
اس جواب پر نورانی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکها سکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں )
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود صاحب“ مولانا شاہ احمدنورانی صاحب“پروفیسر غفور احمد صاحب“چودہری ظہور الہی صاحب“مسٹر غلام فاروق صاحب“سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تهے۔ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔لیکن اس موقع پر  ایک اور مناظرہ  منتظر تها۔۔۔۔۔

کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی۔گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ہرروز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز “کیسے لکھا جائے مسلسل بحث مباحثہ کےبعد
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔سب سے زیادہ جهگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔
اس کے لیے بهٹو حکومت تیار نہ تهی۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو۔
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی  فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نے نورانی صاحب سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش تهی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ نورانی صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجهتے تهے کہ اس کے بغیر حل ادهورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے نورانی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ نورانی صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے  موقف کو دهرایا کہ دفعہ 106 میں مرزائیوں کا نام لکهاجائے  اور اس کی تصریح کی جائے۔
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے۔
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔
نورانی صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔
وزیرقانون نے نکتہ اٹهایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا  (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے ) اور پهر سوچ کر بولے کہ نورانی صاحب مرزا  کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟۔وزیر قانون کا خیال تها شاید نورانی صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن نورانی تو پهر نورانی صاحب تهے )
نورانی صاحب نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟ 
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے۔
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔
نورانی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔
 یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا ۔ اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مولانا شاہ احمد نورانی رحمہ اللہ نے فرمایا
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔

پاکستان کا آئین اور قادیانیت

CONSTITUTION (SECOND AMENDMENT) ACT, 1974

President's Assent Received: 17th September 1974

Gazette of Pakistan, Extraordinary, Part I, 21st September 1974



An Act further to amend the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan

Whereas it is expedient further to amend the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan for the purposes hereinafter appearing;

It is hereby enacted as follows:-

1. Short title and commencement
(1) This act may be called the Constitution (Second Amendment) Act, 1974.
(2) It shall come into force at once.
2. Amendment of Article 106 of the Constitution.
In the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan hereinafter referred to as the Constitution, in Article 106, in clause (3), after the words "communities" the words and brackets "and persons of Quadiani group or the Lahori group (who call themselves 'Ahmadis')" shall be inserted.
3. Amendment of Article 260 of the Constitution.
In the Constitution, in Article 260, after clause (2) the following new clause shall be added, namely--
(3) A person who does not believe in the absolute and unqualified finality of The Prophethood of MUHAMMAD (Peace be upon him), the last of the Prophets or claims to be a Prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after MUHAMMAD (Peace be upon him), or recognizes such a claimant as a Prophet or religious reformer, is not a Muslim for the purposes of the Constitution or law.

کوئی کافر ھے یا کسی بھی مذھب سے تعلق رکھتا ھے.ھمیں کوئی پرواہ  نہیں لیکن جو ہمارے مذھب کی شکل بیگاڑنے کی سازش کرے ہمیں قبول نہیں اور ھم وہی کریں گے جس کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی یعنی لشکر کشی یا کم ازکم انہیں تسلیم نہ کرنا,انہیں مذھبی آذادی نہ دینا,عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہ دینا اگر ھم نے انہیں اقلیت تسلیم کر لیا تو بنیں الاقوامی طاقتیں ان کے حقوق کا مطالبہ کریں گی جن میں سر فہرست مذھبی اور اظہار رائے کی آزادی ھو گی.جو ھیں کسی طور قبول نہیں.
جو شخص قادیانیوں سے مذھبی ہمدردی رکھے ان کی حمایت کرے یا کسی بھی طرح  ان کا ساتھ دے ماسوائے انسانی ہمدردی کے وہ کافر اور واجب قتل ھے ایسے تمام حضرات توبہ کریں اور ائرہ اسلام میں داخل ھو جائیں.
حکومت پاکستان کو چاھیے کہ قادیانیوں کی سہولت کار نہ بنے.
مسٹر خان آپ نے جو سلسلہ ریلیف آسیہ معلونہ اور......کی آزادی سے شروع کیا ایسے فورا ختم کریں ورنہ یہ سلسلہ آپ کی حکومت کے خاتمہ اور آپ کی رسوائی پر ختم ھو گا.

ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم

اور تحریک استحکام پاکستان

ناموس رسالت میں کوئئ بھی تبدیلی قابل قبول نہ ھو گی بصورت دیگر اس کے خلاف تحریک استحکام پاکستان صف اول کی مجاہد ہوگی اور ناموس رسالت پر میں اور میرا پر ساتھی مٹ جائے گا لیکن ناموس رسالت پر سمجھوتہ نہیں کرے گا.ھم اس ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مذھبی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ھیں.
نوٹ: صاحب علم حضرات کو چاھیے کہ ایسے زیادہ شیر کر کے یکجہتی کا اظہار کریں اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رائے کا اظہار کریں.
و اسلام 
سید علی رضا
چیئرمین یتحریک استحکام پاکستان.

Comments

Popular posts from this blog

کردار کشی کی سیاست

انڈے ڈبل روٹی پر پابندی

مسٹر خان سو چھتر اور سو پیاز