پٹرول اور بجلی کا بہترین ماڈل

پٹرول اور بجلی بچت کا ایرانی ماڈل۔


ایران بے شک پٹرول پیدا کرنے والا ملک ہے مگر اس نے جس طرح ایک منظم نظام کے ذریعے کنٹرول رکھا ہوا ہے، وہ پاکستان میں بھی ایک قابلِ عمل ماڈل ہو سکتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل دوست کی زبانی ذیل میں درج ہے:


ایران میں اگر آپ گاڑی یا موٹر سائیکل خریدتے ہیں تو حکومت اس کے ساتھ آپ کو ایک کارڈ بھی دیتی ہے۔ یہ اے ٹی ایم کارڈ جیسا ہوتا ہے۔ اس میں آپ کو ایک مخصوص مقدار میں پیٹرول 1500 تومان (10 روپے) اور دوسرے مخصوص مقدار میں 3000 (20 روپے) تومان میں دیا جاتا ہے۔ اگر آپ زیادہ سفر کرتے ہیں اور یہ مقدار ختم ہو جائے تو پھر آپ کو بغیر سبسڈی کے چھ ہزار تومان پر پیٹرول بھرنا ہو گا۔ ہر پیٹرول پمپ پر اے ٹی ایم مشین کی طرح یہ کارڈ ریڈر لگا ہوتا ہے۔


اس سے یہ ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل چلانے والے غریب آدمی پر کم بوجھ پڑتا ہےـ وہ پورا مہینہ سبسڈی پر کام چلا لیتا ہےـ امیر آدمی جو بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک ہیں انہیں اس کارڈ کی سہولت نہیں دی جاتی۔


پیٹرول اور ڈیزل کے کارڈ دو قسم کے ہوتے ہیں؛

موٹر سائیکل کے کارڈ میں پیٹرول کی مقدار کار کی نسبت کم ہوتی ہے۔

دو قیمتیں ہیں؛ 

1500 تومان اور 3000 تومان۔


بڑی بڑی غیرملکی گاڑیوں کو کارڈ نہیں دیا جاتا۔ ان کے مالکان کو بغیر سبسڈی کے پیٹرول بھرنا ہوتا ہے۔ فرض کیا جاتا ہے کہ یہ امیر لوگ ہیں، افورڈ کر سکتے ہیں۔

ایران نے بجلی کا بھی ایسا ہی نظام بنا رکھا ہے۔ 


بجلی کی چار اقسام ہیں؛

جیسے چابہار ایک گرم اور مرطوب شہر ہے۔ یہاں بغیر ایئرکنڈیشنڈ کے زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس لیے چابہار میں بجلی کے نرخ مشہد یا تہران جیسے معتدل شہروں کی نسبت نصف ہیں۔


آپ چابہار میں سارا دن تین تین اے سی چلائیں تب بھی آپ کا بجلی کا بل مشہدی شہری کے مقابلے میں آدھا بھی نہ ہو گا۔ تجارتی نرخ زیادہ ہیں لیکن اس میں بھی آب و ہوا کی وجہ سے تفریق کی گئی ہے۔

 

سردیوں میں گرم خطوں میں گیس کا نرخ بڑھ جاتا ہے جب کہ سرد علاقوں میں گیس کی قیمت گرا دی جاتی ہے کیوں کہ وہاں ہیٹر چلائے جاتے ہیں۔

بشکریہ سوشل مڈیا

سید علی رضا

تحریک استحکام پاکستان

Comments

Popular posts from this blog

کردار کشی کی سیاست

انڈے ڈبل روٹی پر پابندی

مسٹر خان سو چھتر اور سو پیاز