قربانی کربلا تاریخ قرآن حدیث اور حق و باطل کی جنگ کا مکمل بیان

قربانی کربلا: تاریخ، قرآن، حدیث اور حق و باطل کی جنگ کا مکمل بیان

تاریخی پس منظر قریش کے دو قبیلوں کا اختلاف

قریش کے قبیلے دو مرکزی شاخوں میں بٹے ہوئے تھے:

1. بنو ہاشم — رسول اکرم ﷺ، حضرت علیؑ، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ کا خاندان۔

2. بنو امیہ — ابو سفیان، اس کی بیوی ہندہ، ان کا بیٹا معاویہ اور پوتا یزید۔

⚔️ بچپن سے تلوار کی لکیر

قدیم روایات کے مطابق قریش میں دو جڑواں بچے پیدا ہوئے جو جسمانی طور پر آپس میں جڑے تھے۔ تلوار کے ذریعے ان کو جدا کیا گیا۔ اس وقت بزرگوں نے پیش گوئی کی کہ ان دونوں خاندانوں کے درمیان ہمیشہ تلوار رہے گی — اور ایسا ہی ہوا۔

مکہ کی قیادت:

• بنو ہاشم کے ذمے حجاج کرام کے لیے پانی (سقایا) اور خوراک (رفادہ) کا انتظام تھا۔

• بنو امیہ خانہ کعبہ کے متولی تھے۔

ایک وقت میں دونوں قبیلوں کے درمیان خانہ کعبہ کے کنٹرول پر شرط لگی، جو بنو ہاشم نے جیت لی۔ اس کے بعد مذہبی اور روحانی قیادت بنو ہاشم کے پاس آ گئی لیکن بنو امیہ نے اس دشمنی کو دل میں رکھا۔

⚔️ ابتدائی دشمنی کی بنیاد:

• جنگ بدر:

ہندہ بنت عتبہ کے والد، چچا اور بھائی بدر میں قتل ہوئے، جن میں اس کے والد عتبہ بھی شامل تھے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے اس نے جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کو شہید کرایا اور ان کا جگر چبایا۔

فتح مکہ:

رسول اکرم ﷺ کے عظیم اخلاق نے ابو سفیان، ہندہ اور ان کے بیٹے معاویہ کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا، لیکن ان کے دل میں کینہ ختم نہ ہوا۔

🏴 بنو امیہ کی سازش اور اقتدار پر قبضہ:

• خلافت کے نظام کو ملوکیت میں بدلنے کا پہلا قدم معاویہ نے رکھا۔

• یزید کی نامزدگی کے وقت امام حسینؑ نے بیعت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا:

“مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔” (تاریخ طبری)

🔥 قربانی کا سفر — حضرت ابراہیمؑ سے کربلا تک:

• حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی پیش کی، لیکن اللہ نے دنبہ بھیج کر انسانی قربانی کو روک دیا۔

• حضرت عبدالمطلب نے جب آب زمزم کی کھدائی کے دوران منت مانی کہ اگر اللہ نے کامیاب کیا تو اپنے سب سے عزیز کو قربان کریں گے۔ قرعہ حضرت عبداللہ (نبی اکرمﷺ کے والد) کے نام نکلا لیکن شریعت کے مطابق سو اونٹ دے کر انسانی قربانی کو ختم کیا گیا۔

مگر کربلا میں انسانی قربانی دوبارہ زندہ ہوئی — لیکن یہ قربانی اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے تھی۔

قرآن اور حدیث کی روشنی میں امام حسینؑ کی قربانی

قرآن کا پیغام:

• شہادت کا مقام:

“وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ”

(آل عمران، 3:169)

• جہاد کا حکم:

“وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ”

(البقرہ، 2:193)

• باطل کا انجام:

“قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا”

(الاسراء، 17:81

احادیثِ رسول ﷺ:

• “الحسن والحسین سيدا شباب أهل الجنة”

(ترمذی) — “حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔”

• “حسين مني وأنا من حسين، أحبّ الله من أحبّ حسينًا”

(سنن ابن ماجہ) — “حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔”

• “افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر”

(نسائی) — “ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے۔”

🏴 یزید کا جرم — قرآن اور سنت کی نظر میں:

• شراب نوشی، زنا، ظلم، بیت المال کی لوٹ مار، اور خلافت کو بادشاہت میں بدلنا۔

• امام حسینؑ کا انکار اس بات کا اعلان تھا کہ دین اسلام یزیدیت کے ساتھ نہیں چل سکتا۔

🌹 بی بی زینبؑ کا خطبہ — حق کا اعلان:

یزید کے دربار میں فرمایا:

“یزید! تو سمجھتا ہے کہ آج ہمیں رسوا کر دیا، تو نے تو صرف ظاہری فتح پائی ہے، لیکن خدا کی قسم! نہ تو ہمارے ذکر کو مٹا سکے گا، نہ ہمارے وحی کے نور کو بجھا سکے گا۔”

کربلا کا پیغام — ہر دور کے انسان کے لیے:

• جہاں بھی ظلم ہو، وہاں حسینیت زندہ ہے۔

• جہاں بھی حق دبایا جائے، وہاں کربلا بپا ہے۔

• امام حسینؑ نے سر دے کر بتا دیا کہ حق پر قائم رہنا جان سے زیادہ قیمتی ہے۔

نتیجہ:

• امام حسینؑ کی قربانی دین کی بقاء، انسانیت کی بقاء، اور حق و باطل کی پہچان کا معیار ہے۔

• یزید کا جرم صرف نواسہ رسولؐ کا قتل نہیں، بلکہ وہ اسلام کے آئینی اور اخلاقی نظام پر حملہ تھا۔

آخری پیغام

“اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔”

“حسینؑ چراغ ہدایت اور سفینہ نجات ہیں۔” (حدیثِ نبویؐ)

Comments

Popular posts from this blog

انٹرنیٹ کی بندش

Field Marshal For a General Asim Munir ? A symbol Beyond Rank.

Pakistan- China Friendship A Bond Forged in Trust and Loyalty.