ساڑھ ستی ستارے اور ان کا اثر قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسلامی موقف
ساڑھ ستی، ستارے اور ان کا اثر – قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی مؤقف
تمہید
آج کل سوشل میڈیا، نجومیوں اور اخبارات میں “ساڑھ ستی” (Saturn’s 7.5 Year Period) جیسے الفاظ کا چرچا عام ہے۔ خاص طور پر اگر کوئی شخص برج ثور (Taurus) یا برج جدی (Capricorn) سے متعلق ہو تو فوراً اسے ڈرا دیا جاتا ہے کہ “آپ ساڑھ ستی کا شکار ہیں”، اور “زائچے” اور “ستاروں کی چال” کے ذریعے اس کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
لیکن کیا واقعی ستارے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
کیا ساڑھ ستی کوئی قرآنی یا نبوی حقیقت رکھتی ہے؟
اور ایک مسلمان کے لیے اس پر یقین رکھنا جائز ہے؟
آئیے اب قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں۔
ساڑھ ستی کیا ہے؟
ساڑھ ستی ہندو نجوم میں “زحل” (Saturn) کے سات سال اور چھ ماہ کے دور کو کہا جاتا ہے جو کہ انسان کی زندگی میں مصیبتوں، آزمائشوں، رکاوٹوں، مالی نقصان یا بیماریوں کا وقت سمجھا جاتا ہے۔
یہ تصور صرف ہندو، بابلی اور یونانی نجوم میں پایا جاتا ہے — نہ یہ اسلام کا حصہ ہے، نہ قرآن کا، نہ کسی حدیث کا۔
قرآن کریم کا مؤقف
1. انسان کی تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے:
“وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ”
(سورہ الانعام، 6:59)
ترجمہ: اور اللہ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اس آیت سے واضح ہے کہ ستارے، زائچے یا نجومی غیب (مستقبل) نہیں جان سکتے۔
2. سورج، چاند اور ستارے اللہ کے حکم کے پابند ہیں:
“وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ، وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ”
(سورہ ابراہیم، 14:33)
ترجمہ: اور اللہ نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو تابع کر دیا جو برابر چلتے رہتے ہیں، اور تمہارے لیے رات اور دن کو بھی تابع کر دیا۔
یعنی ان کا کام “چلنا” ہے، “چلانا” نہیں۔
3. ستارے رہنمائی کے لیے بنائے گئے، تقدیر بدلنے کے لیے نہیں:
“وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ”
(سورہ النحل، 16:16)
ترجمہ: اور (اللہ نے) نشانیوں اور ستاروں کو بنایا تاکہ لوگ راستہ معلوم کر سکیں۔
اسلام میں ستاروں کا مقصد صرف “نشان دہی” ہے، “تقدیر سازی” نہیں۔
احادیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں
1. نجوم سیکھنا حرام قرار دیا گیا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“من اقتبس علماً من النجوم فقد اقتبس شعبة من السحر، زاد ما زاد.”
(ابو داؤد: 3905)
ترجمہ: “جس نے علم نجوم سے کچھ حاصل کیا، اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا۔ جتنا زیادہ حاصل کرے گا، اتنا زیادہ جادو میں داخل ہوگا۔”
2. ستاروں کے اثرات کا عقیدہ شرک کی طرف لے جاتا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“من قال: مُطِرْنا بنوء كذا وكذا، فهو كافر بالله، مؤمن بالكوكب.”
(صحیح مسلم: 71)
ترجمہ: “جس نے کہا: ہمیں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ملی، وہ اللہ کا منکر اور ستارے کا مؤمن ہے۔”
اسلامی لحاظ سے “ساڑھ ستی” پر یقین رکھنا کیسا ہے؟
اگر کوئی شخص یقین کرے کہ “زحل کی چال سے میرے رزق میں کمی، بیماری یا نقصان ہو رہا ہے”، تو یہ دو بڑے گناہوں کا سبب بن سکتا ہے:
1. شرکِ خفی – اللہ کے اختیارات کو کسی اور کے ساتھ جوڑنا
2. کفر بالقدر – تقدیر پر ایمان نہ رکھنا
اسلامی مؤقف: آزمائشیں اللہ کی طرف سے آتی ہیں – تربیت، سزا یا قرب کی صورت میں
“وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ…”
(البقرہ 2:155)
ترجمہ: اور ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف، بھوک، مال، جان اور پھلوں کی کمی سے۔
یعنی آزمائش “زحل” کی وجہ سے نہیں، اللہ کی حکمت سے ہوتی ہے۔
ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟
✔️ اللہ سے رجوع
✔️ نفل، صدقہ، توبہ
✔️ خوداحتسابی
✔️ محنت اور حلال ذرائع
✔️ رزق، عزت، عافیت کا طلبگار بننا
خلاصہ
• ستارے انسان کی تقدیر نہیں بناتے، صرف اللہ بناتا ہے۔
• “ساڑھ ستی” جیسی اصطلاحات غیر اسلامی ہیں اور ان پر یقین رکھنا درست نہیں۔
• آزمائش اللہ کی طرف سے بندے کی تربیت، بلندی یا مغفرت کا ذریعہ ہوتی ہے۔
• نجات کا راستہ ہے: دعا، صبر، توبہ، صدقہ، اور اللہ پر مکمل بھروسا۔
✍️ اختتامی پیغام
اے مسلمان! اپنی زندگی کا نقشہ ستاروں سے نہیں، قرآن و سنت سے بناؤ۔ اگر تم اللہ پر بھروسا کرو گے، تو تمہاری تقدیر کے دروازے وہی کھولے گا جس کے پاس آسمان و زمین کی کنجیاں ہیں۔
اسلامی لحاظ سے ایک دلچسپ تحریر لوگ ان نجومیوں کے چنگل سے نکل جائیں گے
ReplyDeleteBeshak
ReplyDeleteAgree 💯
ReplyDelete