“پنجاب دوسرے صوبوں کا حق کھا رہا ہے” — ایک جھوٹا بیانیہ اور حقیقت کا آئینہ
“پنجاب دوسرے صوبوں کا حق کھا رہا ہے” — ایک جھوٹا بیانیہ اور حقیقت کا آئینہ
پاکستان میں ایک عرصے سے ایک بیانیہ گردش کرتا رہا ہے کہ پنجاب دوسرے صوبوں کا حق کھا جاتا ہے، اسی وجہ سے پنجاب میں ترقی زیادہ ہے۔ یہ جملہ جذبات کو بھڑکانے اور صوبائی منافرت پھیلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن جب ہم آئینی، مالیاتی اور پیداواری حقائق دیکھتے ہیں تو یہ دعویٰ حقیقت کے برعکس نکلتا ہے۔
قدرتی وسائل اور رائلٹی کی تقسیم — آئین کیا کہتا ہے؟
آئینِ پاکستان کے مطابق تیل و گیس کی ملکیت وفاق اور پیدا کرنے والے صوبے کی مشترکہ ہوتی ہے (آرٹیکل 172(3))، اور گیس پر رائلٹی و ایکسائز براہِ راست اسی صوبے کو ملتی ہے جہاں سے گیس نکلتی ہے (آرٹیکل 161(1))۔ 2010 کے بعد ڈویلپمنٹ سرچارچ بھی انہی صوبوں کو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان، سندھ یا کے پی میں جتنی گیس پیدا ہوتی ہے، اس کی رائلٹی ان ہی صوبوں کو ملتی ہے — پنجاب اس پر قابض نہیں ہوتا۔
گیس کی پیداوار اور کھپت — حقیقت کا منظر
اوگرا کی تازہ رپورٹس کے مطابق:
• سندھ: تقریباً 2,225 MMCFD گیس پیداوار (ملک میں سب سے زیادہ)
• بلوچستان: تقریباً 651 MMCFD
• خیبر پختونخوا: تقریباً 366 MMCFD
• پنجاب: صرف تقریباً 92 MMCFD
یعنی پنجاب خود سب سے کم گیس پیدا کرتا ہے، مگر آبادی اور صنعت زیادہ ہونے کی وجہ سے کھپت میں سب سے آگے ہے — تقریباً 52٪ ملکی گیس پنجاب میں استعمال ہوتی ہے، سندھ میں 39٪، کے پی میں 7٪ اور بلوچستان میں صرف 2٪۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب کی صنعت اور عوام کو چلانے کے لیے دیگر صوبوں سے گیس لانی پڑتی ہے، مگر اس کی رائلٹی اسی صوبے کو جاتی ہے جہاں سے پیداوار ہوتی ہے۔
این ایف سی ایوارڈ — پیسہ کیسے بٹتا ہے؟
پاکستان میں وفاقی ٹیکس (انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز وغیرہ) زیادہ تر وفاق اکٹھا کرتا ہے اور پھر این ایف سی فارمولے کے تحت صوبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس فارمولے میں آبادی، پسماندگی، ریوینیو جنریشن اور آبادی کی کثافت شامل ہیں۔ موجودہ فارمولے کے تحت وفاقی ٹیکس ریونیو کا 57.5٪ صوبوں کو جاتا ہے۔
بجٹ 2025-26 میں صوبوں کو این ایف سی کے تحت ملنے والی رقوم:
• پنجاب: ₹4.76 ٹریلین (≈51.7٪)
• سندھ: ₹2.43 ٹریلین (≈24.5٪)
• خیبر پختونخوا: ₹1.342 ٹریلین + 1٪ اضافی (دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات)
• بلوچستان: ₹743 ارب (≈9٪) — اور یہ حصہ آئینی گارنٹی کے تحت مقرر ہے، چاہے ٹیکس کم بھی اکٹھے ہوں۔
مزید یہ کہ بجٹ میں صوبوں کو گیس اور تیل کی رائلٹی و دیگر محصولات کی مد میں بھی ₹217 ارب اضافی منتقل کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخوا کو 2024-25 میں تقریباً ₹26.2 ارب صرف گیس رائلٹی میں ملے، باقی آمدن دیگر میکانزم سے۔
اصل مسئلہ — بجٹ کا استعمال، نہ کہ حق چھیننا
اعداد و شمار واضح ہیں:
• قدرتی وسائل کی آمدن پیدا کرنے والے صوبے کو ملتی ہے۔
• وفاقی ٹیکس کا بڑا حصہ این ایف سی فارمولے کے تحت صوبوں کو ملتا ہے۔
• پنجاب اپنی پیداوار سے نہیں، بلکہ وفاقی فارمولے سے ملنے والی رقم اور اپنی ٹیکس کلیکشن سے چلتا ہے۔
اس لیے اگر کسی صوبے میں ترقی کم اور مسائل زیادہ ہیں تو اس کی بڑی وجہ اپنی صوبائی حکومت کا بجٹ کے استعمال میں ناکام ہونا، بدانتظامی اور کرپشن ہے — نہ کہ پنجاب کا ’’حق کھانا‘‘۔
عوام کو کیا کرنا چاہیے؟
• جھوٹے نعروں پر چلنے کی بجائے اپنی حکومت سے سوال کریں کہ این ایف سی اور رائلٹی کی اربوں روپے کی رقم کہاں خرچ ہوئی؟
• ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ میں عوامی شمولیت ہو۔
• بجٹ میں تعلیم، صحت، پانی، سڑکوں اور روزگار پر خرچ کا تقاضا کریں۔
• وسائل کی پیداوار بڑھانے اور مقامی صنعت لگانے پر دباؤ ڈالیں۔
نتیجہ: ’’پنجاب دوسرے صوبوں کا حق کھاتا ہے‘‘ — یہ نعرہ جذباتی ہے، مگر حقائق اس کی تردید کرتے ہیں۔ اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہر صوبے کے عوام اپنی قیادت سے حساب لیں اور وسائل کے صحیح استعمال کو یقینی بنائیں۔
Syed Ali Raza Naqvi Bukhari
Unity of Peace, Economic Reform, and Global Unity
Founder & Chairman of Tehreek Istehkam Pakistan, and the author of “Law of God” and “Social Democratic System.” He advocates for truth, social justice, and reform in all sectors of society.
Comments
Post a Comment